1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں جرمن فوجیوں کے کردار، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

13 جنوری 2010

افغانستان میں جرمن فوجیوں کی موجودگی اور وہاں ان کے کردار پر جرمنی میں بحث اپنے عروج پر ہے۔ چند روز قبل پروٹسٹنٹ کلیسا کی جانب سے اس حوالے سے شدید تنقیدی بیان سامنے آئے۔ اس بارے میں ژورگ فِنز کا تحریر کردہ تبصرہ:

https://p.dw.com/p/LUHs
تصویر: AP

دراصل جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ کی کونسل کی نو منتخب سربراہ اور ہنوور سے تعلق رکھنے والی خاتون بشپ مارگوٹ کیسمن کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے نہ صرف جرمن حکومت کی موجودہ افغانستان پالیسی پر سوال اٹھایا ہے بلکہ اس امر پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ افغانستان کی جنگ کی منطق سے اب تک تو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ کیسمن کے نئے سال کے خطبے نے وفاقی جرمن ذرائع ابلاغ کو بھی سن 2010 ء کے آغاز میں ہی یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اس بارے میں غور و خوض کرے کہ جرمن معاشرے میں چرچ اور بشپ کے عہدے کے فرائض کیا ہیں۔

zu Guttenberg zu Besuch Afghanistan Truppen Soldaten
جرمن وزیر دفاع سو گوٹن برگتصویر: AP

اس ملک میں ریاست، صوبوں اور مختلف برادریوں کے سیاسی نمائندے اس بات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے سیاسی منصوبوں اور سرگرمیوں کو کس حد تک کلیسائی تائید حاصل ہے اور ان سیاسی نمائندوں کو جب پالیسی سازی میں چرچ کی طرف سے ان کی توقعات کے مطابق حمایت نہیں ملتی، یا ان کے کسی پروجیکٹ پر کلیسا کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے، تو سیاستدان بری طرح چڑ جاتے ہیں اور مشتعل ہو جاتے ہیں۔

غالباً گزشتہ سالوں کے دوران عوامی سطح پر اس موضوع پر بہت کم بحث ہوئی کہ جرمنی میں چرچ حکومت کا ایک ناقد ساتھی ہے۔ عہد نامہ قدیم یا تورات کی روایات کے مطابق پیغمبروں کو خدا کی طرف سے یہ فرائض سونپے گئے تھے کہ وہ روز مرہ زندگی اور عوام کے مسائل پر سوال اٹھائیں۔ بیواؤں، یتیموں، بیماروں اور ناتواں انسانوں کی مدد کریں۔ انہیں امن اور سلامتی مہیا کریں۔

Guttenberg zu Besuch bei den Truppen Afghanistan
قندوز حملے کے بعد سے اس حوالے سے بحث میں شدت آئی ہےتصویر: AP

ہمارے معاشرے میں کلیسا کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ارباب اقتدارکے فیصلوں کی منطق اور فوج کی سرگرمیوں کی معقولیت کے بارے میں سوال جواب کرے۔ چرچ نہ تو خوشحال معاشروں کو ذائقہ داراشیاء فراہم کرنے اور نہ ہی سیاست کو چمکانے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اب وہ دور بھی گیا جس میں جنگوں اور مسلح جھڑپوں میں چرچ ساتھ دیا کرتا تھا۔ کوئی اب اُس دور میں واپس جانا نہیں چاہتا۔ ایسے میں جب جرمنی کے موجودہ وزیر دفاع اپنے پیشرو کے برخلاف افغانستان کے ضمن میں بارہا جنگ اور لڑائی کی بات کریں گے تو یہ خیال کہ افغانستان مغربی جمہوری معیار اور طرز کا ایک جدید ملک بن سکتا ہے، خواب و خیال معلوم ہوتا ہے۔ ان خیالات کی جھلک کسی حد تک مارگوٹ کیسمن کے نئے سال کے خطبے میں پائی جاتی تھی۔ یا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جرمن معاشرہ ایک بار پھر مردانگی کی نمائش کرنے والے یعنی ’ماچو‘ رویے کا حامل ہو جائے۔

مطلب یہ کہ یہ تصور کہ ’عورت کو چرچ تک محدود رہنا چاہئے کیونکہ وہ کچن اچھا چلا سکتی ہے اور اپنے خاندان کی دیکھ بھال کا کام بہتر طور پر سرانجام دے سکتی ہے، دوبارہ سے غالب آ جائے۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شاید نئے سال کے دوران جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ کی کونسل کی نو منتخب سربراہ مارگوٹ کیسمن پر یہ تمام امور واضح ہوجائیں۔

تبصرہ : ژورگ فِنز / ترجمہ : کشور مصطفیٰ

ادارت : مقبول ملک