افغانستان میں بگرام کا حراستی کیمپ
2 فروری 2009گوانتانامو کے برعکس بگرام کا حراستی کیمپ افغانستان کے ایک جنگ زدہ علاقے میں ہے۔ اس حوالے سے امریکی قانون بھی ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یہاں قید کئے جانے والوں کی حالت گوانتانامو حراستی کیمپ سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہاں قیدیوں کو مارنا پیٹنا، اذیتیں پہنچانا اور قید تنہائی میں رکھنا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔
اسی حراستی کیمپ میں دسمبر 2002 میں امریکی عملے کے تشدد اور ناروا سلوک کی وجہ سے دو قیدی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےتھے۔ ابھی حال ہی میں چار قیدیوں نے جنہیں کہیں اور سے لا کر یہاں قید کیا گیا، امریکی وکیلوں کی مدد سے عدالت سے رجوع کیا۔ یہ لوگ کسی طرح کی عدالتی کارروائی کے بغیر ایک طویل عرصے سے قید میں ہیں۔ چنانچہ امریکی عدالت نے حکومت واشنگنٹن کو 20 فروری تک کا موقع دیا کہ وہ اس کیس میں اپنی پوزیشن واضح کرے۔
ایک غیر جانبدار انسانی کمیشن کے ذمہ دار غلام دستگیر ہدایت کے مطابق، بگرام کے حراستی کیمپ پر حکومت کابل کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہم کئی بار امریکہ کے سول اور فوجی عملے سے درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں اس کیمپ کے معائنے اور قیدیوں سے ملنے کی اجازت دی جائے لیکن ہمیں آج تک اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم بین الاقوامی حقوق انسانی تنظیموں سے رابطے میں ہیں۔ سب کو ان قیدیوں کی صورت حال پر سخت تشویش ہے‘‘۔
یہاں زیادہ تر قیدی افغانی ہیں۔ کچھ پاکستانی اور کچھ عرب باشندے بھی ہیں۔ افغانستان کے مصالحتی کمیشن کے صدر محمد اکرم میر نے بتایا: ’’ ہم نے ایسے کئی لوگوں سے جنہیں یہاں سے رہائی نصیب ہوئی، ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا رہا‘‘۔
افغانستان کی حقوق انسانی تنظیم کے لال گل لال نے بتایا:’’ بگرام میں ہر طرح سے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق انسانی پامال کئے جا رہے ہیں۔‘‘
کابل کے ایک وکیل نجیب محمود کا مطالبہ ہے:’’ قدیوں سے تفتیش کے وقت افغانستان عدلیہ کا ایک نمائندہ ہر صورت وہاں موجود ہونا چائیے۔‘‘
اوباما انتخابی مہم کےدوران پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کی جنگ کواس کے حتمی انجام تک پہنچا کر رہیں گے۔ اس لئے بگرام حراستی کیمپ کے بند ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔