1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقہ میں ترکی کی بڑھتی سرگرمیاں، ایردوآن کا دو روزہ دورہ

Antonio Cascais / امجد علی2 جون 2016

براعظم افریقہ میں ترکی کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن اس براعظم کے دو اہم ملکوں یوگنڈا اور کینیا کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ آخر ترک صدر کے اہداف کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/1Iyhn
Afrka Uganda Erdogan
ایردوآن یکم جون کو اپنے دورے کے آغاز پر یوگنڈا میں گارڈ آف آنر کا معائنہ کر رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/P. Busomoke

ترک صدر اور اُن کے ہمراہ گئے ہوئے اقتصادی نمائندوں کے ایک بڑے وفد کا مقصد یوگنڈا اور کینیا کے ساتھ ترکی کے کاروباری تعلقات کو وسعت دینے کے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔ جرمن شہر زیگن میں تحقیقی مرکز برائے جنوب مشرقی یورپ اور قفقاذ کرسٹیان یوہانیس ہینرِش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ براعظم افریقہ میں ترکی کی سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔

اُنہوں نے بتایا کہ ایردوآن اور اُن کی جماعت اے کے پی کے سیاسی عروج سے چار سال پہلے 1998ء میں وزیر اعظم مسعود یلماز ہی کے دور میں افریقہ میں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت ترک سرگرمیاں بڑھنا شروع ہو گئی تھیں تاہم ترکی کے داخلی سیاسی مسائل کی وجہ سے تب یہ منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔ اب ایردوآن اس منصوبے کو آگے لے کر چلے ہیں لیکن ایک فرق کے ساتھ: ’’ایردوآن کے ذہن میں صرف اقتصادی اہداف ہی نہیں ہیں۔ وہ افریقہ کے اُن ممالک پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں، جہاں سنّی مسلمان اکثریت میں ہیں۔‘‘

ہینرِش کے مطابق افریقہ میں ایک محافظ قوت کے طور پر سامنے آنے کے خواہاں ترکی کے صدر ایردوآن سے یہ کم ہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ یوگنڈا یا کینیا میں انسانی حقوق یا اظہارِ رائے کی پامالی پر زور دیں گے۔

جرمنی کی ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کی استنبول شاخ کے انچارج کرسٹیان براکل کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ ایردوآن افریقہ میں مذہبی عزائم بھی رکھتے ہیں مثلاً ایردوآن صومالیہ کے حوالے سے بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کیسے ترکی افریقہ کی اس ’ناکام ریاست‘ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے: ’’صومالیہ کو مخاطب کر کے ایردوآن کہتے ہیں کہ مغربی دنیا نے تمہیں تنہا چھوڑ دیا ہے لیکن ترک وہاں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں کیونکہ ہم بھی مسلمان ہیں۔‘‘ حال ہی میں صومالیہ میں قائم کردہ ترک فوج کے ایک اڈے میں حکومتی افواج کو تربیت دی جا رہی ہے۔

Uganda Kampala Yoweri Museveni und Erdogan
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی یوگنڈا میں اپنے ہم منصب یوویری موسوینی کے ساتھ ملاقات کو ’تاریخی‘ قرار دیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/AA/K. Ozer

ماہرین کے مطابق گو افریقہ میں ترکی کا براہِ راست مقابلہ بھارت، برازیل اور چین جیسی ابھرتی طاقتوں سے ہے لیکن ابھی ترکی کی نظر وہاں کے معدنی وسائل سے زیادہ اقوام متحدہ میں افریقی ملکوں کے ووٹوں پر ہے۔ ترکی عالمی اسٹیج پر زیادہ سے زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے کی کوشش میں ہے، جسے ناقدین ’نئے عثمانی دور‘ سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔

2002ء سے اب تک براعظم افریقہ میں ترک سفارت خانوں کی تعداد دگنا اضافے کے ساتھ بیس سے زیادہ ہو چکی ہے اور ترکی اور افریقی ممالک کے مابین تجارت کے حجم میں بھی چھ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید