1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعلیٰ تعلیمی فنڈز میں کٹوتی :پورے پاکستان میں احتجاج

22 ستمبر 2010

پاکستان میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی پر ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں تدریسی عمل کا بائیکاٹ جاری ہے۔ تدریسی عملے یعنی اساتذہ اور پروفیسروں کی جانب سے کئے جانے والے اس احتجاج میں طلباء بھی شریک ہیں۔

https://p.dw.com/p/PJ6H
اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بجٹ میں کٹوتی، براہ راست اثر تعلیم و تحقیق کے معیار پرتصویر: DW

بدھ کے روز اسلام آباد میں مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء نے اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ مظاہرین وفاقی حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ اپنے دیگر غیر ترقیاتی اخراجات کم کرے اور تعلیمی بجٹ میں کوئی کمی نہ کرے۔

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز یعنی نمل کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر سہیل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ 15.7 ارب روپے کے تعلیمی بجٹ میں سے اب تک صرف ڈیڑھ ارب روپے ریلیز کئے گئے ہیں۔ پروفیسر سہیل کے مطابق دیگر سرکاری ملازمین کی طرح ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا: ’’صرف ہماری یونیورسٹیوں کے لئے مختص سات ارب روپے حکومت نے روک رکھے ہیں۔ تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے متفقہ طور پر حکومت سے کہا ہے کہ اگر آپ کے پاس ہائر ایجوکیشن کے لئے رقوم نہیں ہیں، تو ہم سب وائس چانسلرز استعفے دے دیتے ہیں اور تمام یونیورسٹیوں اور فیکلٹیز کو بند کر دیا جائے۔‘‘

Pakistan neues Parlament bei seiner ersten Tagung in Islamabad, der neu gewählte Gesetzgeber Yousuf Raza Gillani
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس معاملے کا نوٹس لے کر ایک کمیٹی قائم کر دی ہےتصویر: AP

مظاہرے میں شریک نمل یونیورسٹی کے ایک لیکچرر آزاد احمد کے مطابق اگر حکومت نے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کا فیصلہ واپس نہ لیا تو ملک کا مستقبل دائمی اندھیروں کا شکار ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا: ’’معاشرے میں پہلے ہی شدت پسندی کا ماحول ہے، جس کے باعث معاشرہ مشکلات کا شکار ہے۔ ملک میں جنگ کی سی صورتحال ہے۔ ہم حکومت سے غیر ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقوم میں کٹوتی کی گزارش کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ تعلیم کی مد میں مزید فنڈز فراہم کئے جائیں۔‘‘

اس موقع پر اساتذہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اکٹھے ہونے والے طلباء کی اکثریت اپنے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے بھی پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ ان طلباء نے وفاقی حکومت کے سرکاری جامعات کو دئے گئے اس منشور پر بھی تنقید کی، جس میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹیاں اخراجات پورا کرنے کے لئے مالی وسائل بھی خود ہی پیدا کریں۔

''بہت سے ذہین طلبہ کی نظریں سکالرشپس پر لگی ہوتی ہیں اور اس کے لئے وہ سخت محنت کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔ لیکن جب انہیں سکالرشپ نہیں ملیں گے تو لازمی بات ہے کہ ان کی تعلیم متاثر ہوگی۔‘‘

Flash-Galerie Pakistan
کراچی یونیورسٹی کے صدر دروازے کو جانے والے راستے پر فرائض انجام دینے والا ایک سکیورٹی اہلکارتصویر: AP

دوسری جانب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس معاملے کا نوٹس لے کر ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں مختلف جامعات کے وائس چانسلرز شامل ہیں۔ لیکن اس کمیٹی کا ایک اجلاس ہونے کے باوجود بات کسی نتیجے تک نہیں پہنچی۔ ادھر اعلیٰ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری کا کہنا ہے کہ فنڈز کی کمی سے طلباء کو سکالرشپس سے بھی محروم ہونا پڑ رہا ہے، جو نئی نسلوں کے لئے خوش آئند نہیں ہے۔ ڈاکٹر لغاری نے امید ظاہر کی کہ حکومت اس فنڈ میں کمی نہیں کرے گی۔

’’فیسوں میں پہلے ہی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لوگ پہلے ہی بڑی مشکل سے فیسیں ادا کر رہے ہیں۔ اکثر طلبا صرف اس لئے گریجوایشن کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے پاس بھاری فیسیں دینے کے لئے پیسے نہیں ہوتے۔ جب یہ فیسیں تین گنا بڑھا دی جائیں گی تو ایسے لوگوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس کی پہلی میٹنگ کل ہوئی تھی اور دوسری میٹنگ کل جمعرات کو ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت تعلیمی فنڈز میں کٹوتی پر نظر ثانی کرتے ہوئے مزید کمی نہیں کرے گی۔‘‘

اسی دوران آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن نے اپنے مطالبات کے منظور ہونے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں