اسکول پر حملے میں روس کا کوئی کردار نہیں، ماسکو
28 اکتوبر 2016ماسکو حکومت کو ایک شامی اسکول پر کیے گئے مبینہ حملے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر عالمی برادری کی تنقید کا سامنا ہے۔ یورپی یونین نے شام میں روسی فوجی کارروائی جاری رکھنے کی صورت میں ماسکو حکومت پر نئی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔ دوسری جانب ماسکو کا اصرار ہے کہ جس شامی اسکول پر حملے میں دو درجن کے قریب طلبا ہلاک ہوئے ہیں، اُس حملے میں وہ شریک نہیں تھا۔
اسکول پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب امریکا اور برطانیہ نے کہا ہے کہ اُن کو امید ہے کہ اسلامک اسٹیٹ‘ کو اُس کی خود ساختہ خلافت سے نکال باہر کرنے کا عمل اگلے چند ہفتوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ الرقہ پر حملے میں ترکی کی شمولیت بھی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ترک نواز شامی باغیوں کی مدد کے لیے اُن کا فوجی آپریشن جاری رہے گا اور وہ بھی الرقہ پر چڑھائی میں شریک ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف نے ایک اسکول پر کیے گئے حملے میں بائیس طلبا اور چھ اساتذہ کے ہلاک ہونے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اِس کی مذمت کی ہے۔ یہ حملہ شامی صوبے ادلب کے ایک گاؤں حاس پر کیا گیا تھا۔ ادلب صوبے کو پوری طرح اسد حکومت کے مخالف باغی گروپ کنٹرول کرتے ہیں۔ اس میں فتح الشام نامی گروپ بھی شامل ہے، جو پہلے النصرہ فرنٹ کہلاتا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق شام کی زمینی فوج جیسے ہی مشرقی حلب کا کنٹرول مکمل طور پر حاصل کر لے گی، تو اُس کا اگلا ٹارگٹ ادلب صوبہ ہوگا۔ ادلب صوبے کے کئی ٹھکانوں پر روسی اور شامی جنگی طیارے وقفے وقفے سے بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ادلب صوبے کے گاؤں حاس پر حملے کے حوالے سے روسی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان ماریا زخارووا نے واضح کیا کہ اِس خوفناک المیے میں روس کا قطعی طور پر کوئی کردار نہیں ہے۔ انہوں نے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا۔ روسی وزارت دفاع کا بھی کہنا ہے کہ پچھلے نو ایام کے دوران روس اور شامی جنگی طیاروں نے کوئی فضائی حملہ نہیں کیا ہے۔ اسی دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے شامی باغیوں پر نئے حملے دوبارہ شروع کیے جانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔