1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسپین میں خواتین پر گھریلو تشدد ایک عام بات

Spiegelhauer, Reinhard (ARD) 12 اکتوبر 2008

پارلیمان میں خواتین وزراء کی موجودگی اور نت نئے صنفی برابری کے قوانین بھی ہسپانوی معاشرے میں پائے جانے والے گھریلو تشدد کے واقعات میں کمی نہیں لا پارہے۔

https://p.dw.com/p/FYHO
ایک نوجوان ہسپانوی لڑکی مردانگی کے دکھاوے کے خلاف کیے جانے والے مظاہرے کے دورانتصویر: picture-alliance/dpa

ہسپانیہ میں خواتین پر گھریلو تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں کے واقعات عام ہیں۔ ہسپانوی معاشرے میں اسے کوئی بڑا جرم نہیں گردانا جاتا۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے ٹی وی کے ذریعے جاری آگاہی پر مبنی اشتہارات اور سڑکوں پر چسپاں اشتہاراتی پوسٹر بھی معاشرے میں پائے جانے والے ان پرُ تشدد واقعات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکیے ہیں ۔

ماہر نفسیات اور سیاست دان ماریہ ٹیریسا Maria Teresa Gómez-Límon کہتی ہیں کہ ہسپانوی معاشرے میں عورت پر ہاتھ اٹھانا ، اسے مارنا پیٹنا نہ صرف ایک رواج ہے بلکہ یہ ہسپانوی معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے اور اس کے ختم ہونے میں بہت وقت لگے گا:’’گھریلوتشدد کے ایسے واقعات، جن میں شریک حیات کی عمر پچیس سال یا اس سے کم ہو، ایسے واقعات میں دو ہزار ایک سے سات تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ بہت پریشان کن بات ہے کیونکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پرتشدد واقعات صرف روایتی جوڑوں میں ہی عام نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔‘‘

Spanien Wahlabgabe Maria Teresa Fernandez de la Vega
سپین کی نائب وزیر اعظم بھی ایک خاتون ہیں۔ ان کا نام ماریہ ٹیریسا فرننڈس ڈے لا ویگا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

گو میز لی مون نے گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی مدد کے لیے ایک کتابچہ ترتیب دیا ہے۔ اس کتابچے کا عنوان ہے ’جو محبت کرتا ہے وہ دکھی نہیں‘ ۔ وہ گھریلو تششد کے کیسسز پر عدالتی معاون کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہسپانوی معاشرہ وقت کے ساتھ مزید تشدد کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے۔ ’’کئی معاملات میں میاں بیوی نا پختہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تو بڑے ہوتے ہیں لیکن جذباتی طور پر نہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ازدواجی زندگی اور ساتھ رہنے سے پیدا ہونے والے دباؤ کو جھیل نہیں پاتے۔‘‘

گو میز لی مون کے مطابق اکثر واقعات میں خواتین میں اس بات کا شعورہی نہیں ہوتا کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اسی لیے اس کتابچے میں کئی ایسے سوالات پوچھے گئے ہیں جیسا کہ کیا آپ کا شوہر اکثر آپ پر شک کرتا ہے؟ اور کیا وہ دوسروں کے سامنے آپ کی بے عزتی کر رہا ہے اور کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کو سزا ملنی چاہیے؟ ۔

Spanien Regierung Ministerin für Gleichberechtigung Bibiana Aido
وزیر مساوات بادشاہ سے حلف لیتے ہوئے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری جانب، ہسپانوی حکومت اس کوشش میں ہے کہ گھریلو تششد کی شکار خواتین اس جبر کے خلاف آواز اٹھائیں اور پولیس میں رپورٹ درج کروائیں۔ اسی سلسلے میں فری ہیلپ لائن بھی موجود ہے۔ فورنزک ڈاکٹر مگ وے لورینتے کہتے ہیں ۔’’مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ گھریلو تشدد کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اسے ایک حق کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اور یہ کہ اگر آپ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تو اس میں شدت سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور حملہ آور یہی توقع کر سکتا ہے گا کہ اسے سزا نہیں ملے گی۔‘‘

کئی بار عدالتی فیصلے بھی ایسے واقعات میں کچھ نہیں کر پاتے۔ اکثر طلاق شدہ خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں۔ اور ایسے لوگ جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، انہیں بھی اپنی جان کا خطرہ رہتا ہے۔ جیسا کہ میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Jesus Neria رواں سال اگست میں انہوں نے جونہی ایک شخص کو بیچ سڑک پر اپنی بیوی کو مارتے ہوئے دیکھا تو فوراً بیچ بچاؤ کروانے کود پڑے تھے۔

ان کی بیوی کہتی ہیں:’’ جب وہ گھر پر آئے تو انہوں نے صرف یہی بتایا کہ ،جب انہوں نے عورت کو پٹتے دیکھا تو انہیں کتنا غصہ آیاتھا۔ وہ زمین پر گر چکی تھی پھر بھی اس کا شوہر اسے مارتا جا رہا تھا۔ نیریا اس خاتون پر ہوتا ہوا ظلم دیکھ نہ سکے اور انہوں نے بیچ بچاؤ کروایا۔ اس خاتون کو بچاتے ہوئے انہیں اپنے زخموں کی پرواہ نہیں رہی۔‘‘

پروفیسرکو اس شخص نے اتنا مارا کہ وہ اس واقعے کے دو دن بعدکوما میں چلے گئے اور ابھی تک کوما میں ہی ہیں اور جس خاتون کو بچانے کے لیے انہوں نے اپنی جان کی پرواہ تک بھی نہیں کی تھی اس نے آج تک اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے واقعے کی رپورٹ بھی پولیس میں درج نہیں کروائی۔