150811 Spanien Finanzkrise
15 اگست 2011اسپين اقتصادی بحران کی زد ميں ہے۔ 20 فيصد ہسپانوی کارکن بے روزگار ہيں۔ جن شہريوں نے ماضی ميں بينکوں سے قرضے لے کر مکانات اور فليٹ خريدے تھے، اُن ميں سے بہت سوں کو اب شديد مشکلات کا سامنا ہے۔
انہيں اپنے گھر بار سے محروم ہونے کا خطرہ ہے کيونکہ قرض مکمل طور پر ادا نہ ہوجانے تک مکانات بينکوں ہی کی ملکيت رہتے ہيں۔نائجيريا کی 40 سالہ پاٹی کو بھی اسی مشکل کا سامنا ہے۔ وہ 14 سال قبل اپنے شوہر کے ساتھ اسپين آئی تھی۔ وہ اپنے فليٹ کا تقريباً سارا قرض ادا کر چکی ہے۔ بس کچھ قسطيں رہ گئی ہيں جن کے ليے اب اُس کے پاس رقم نہيں ہے۔ وہ فليٹ سے بے دخل کيے جانے سے صرف اس ليے وقتی طور پر بچ گئی کيونکہ اُس کی حمايت آنے والے نوجوانوں کی تعداد پوليس والوں سے زيادہ تھی۔
ليکن ايک نہ ايک دن اُسے فليٹ خالی کرنا ہی پڑے گا۔ پاٹی نے کہا: ’’ميرا شوہر چار سال سے بے روزگار ہے اور ميری ملازمت بھی چھوٹ گئی ہے۔ اس ليے ہم فليٹ کے قرضے کی قسطيں ادا نہيں کر سکتے۔‘‘پاٹی کو ’15 مئی‘ نامی احتجاجی تحريک سے مدد مل رہی ہے، جو خاص طور پر بہت زيادہ بے روزگاری اور کرپٹ سياستدانوں کے خلاف ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے جبری بے دخلی اسپين کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ احتجاجی تحريک اسے بنيادی شہری حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے اور وہ اب تک 70 بے دخليوں کو رکوا چکی ہے، ليکن صرف عارضی طور پر۔
تحريک کے 20 سالہ کارکن ڈانئيل نے کہا: ’’ہم اس وقت بہت سے خالی مکانات کی معمولی مرمت کر رہے ہيں تاکہ بے گھر ہوجانے والے وہاں رہ سکيں۔‘‘اسپين کی احتجاجی تحريک يہ مطالبہ کر رہی ہے کہ قرضوں کا ايک نيا قانون بنايا جائے۔
پاٹی کا کہنا ہے کہ فليٹ خريدتے وقت جائيداد فروخت کرنے والی فرم نے اُسے صحيح مشورہ نہيں ديا تھا۔ اُس سے کہا گيا تھا کہ ماہانہ قسطوں کی ادائيگی کے بعد جلد ہی فليٹ اُس کی ملکيت بن جائے گا۔ اُس وقت اُسے يہ بھی پتہ نہيں تھا کہ ايک دن اسپين ميں روزگار کا حصول اتنا مشکل بن جائے گا۔
رپورٹ: اشٹيفانی آئشلر / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک