اسلام کو کسی مارٹن لوتھر کی ضرورت نہیں، تبصرہ
23 مئی 2016لارڈ کرومر مصر میں برطانوی جنرل قونصل کے عہدے پر فائز تھے کہ انہوں نے یہ مشہور فقرہ کہا تھا، ’’ایک اصلاح شدہ اسلام، پھر اسلام نہیں رہے گا۔‘‘ اس فقرے سے مشرقی اور مغربی دنیا کے روایتی مذہبی رہنما، محقق اور اسلامی برادریاں بھی متفق ہیں۔ ان لوگوں اور دنیا کے زیادہ تر مسلمانوں کے لیے اسلام ایک مکمل دین ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی ’’اصلاحات‘‘ نہیں کی جا سکتیں۔
لیکن اس نظریے کے برعکس معروف ایرانی فلسفی عبدالکریم سروش کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو عصر حاضر میں اسلام میں اصلاحات کے نام پر عالمی سطح پر بحث و مباحثے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سروش اپنی تحریروں میں مذہبی علم میں تبدیلیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں ’’اسلام کا کوئی بھی ایک ورژن‘‘ تمام ادوار اور زمانوں کے سیاق و سباق کے حوالے سے درست نہیں ہو سکتا۔
سروش کہتے ہیں، ’’میں مذہبی تعلیمات کا موازنہ ایک دریا سے کرتا ہوں اور میری نظر میں پیغمبر اس دریا کا منبع تھا۔ تمام اسلامی روایات ایک دریا ہیں، جو ابدیت کی طرف بہتا چلا جا رہا ہے۔ ہم اس دریا کا ایک خاص حصہ ہیں جبکہ ہماری آئندہ نسل اسی دریا کا کوئی دوسرا حصہ ہوگی۔ ہمیں یہ کبھی بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ مذہب ایک ٹھہرا ہوا پانی ہے بلکہ یہ ایک بہتا ہوا دریا ہے۔‘‘
جدیدیت اور اسلام میں ہم آہنگی
دنیا میں کسی بھی جگہ شدت پسندوں کے حملے کے بعد یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں کہ اسلام میں اصلاحات لائی جائیں۔ یہ مطالبہ قابل فہم تو ہے لیکن نہ تو حقیقت پسندانہ ہے اور نہ ہی ضروری۔ کسی کو یہ ہی نہیں علم کی کس چیز میں تبدیلی لائی جائے اور اصلاح شدہ اسلام کیسا ہوگا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ اصلاحات کرے گا کون؟
اس وقت زیادہ تر اسلامی ممالک خود اندرونی مسائل کا شکار ہیں۔ مصر کے فوجی آمر السیسی نے اصلاحات کا نعرہ تو لگایا ہے لیکن اسے کسی بھی طور پر سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا۔ جامعہ الازہر کا کردار ویسے بہت محدود کر دیا گیا ہے اور سیاسی آزادی کے بغیر ایک جامع مذہبی اصلاح ویسے ہی ممکن نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں اگر کہا جائے تو اسلام کو کسی مارٹن لوتھر کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام اور جدید آئینی ریاست کی کامیابیوں، حقائق اور اخلاقی معیار میں مفاہمت ہونی چاہیے۔ یہ اب مفکرین کا کام ہے کہ وہ ایسی مذہبی تشریحات منظر عام پر لائیں، جو آزاد جمہوری بنیادوں کے اندر رہتے ہوئے کارآمد ثابت ہوں اور ہم سب کا یہ کام ہے کہ انہیں ہماری حمایت حاصل رہے۔