1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلام مذہب کم اور مطلق العنان تحریک زیادہ ہے‘، جرمن صحافی

مقبول ملک
7 اکتوبر 2016

جرمنی کی مہاجرین اور اسلام مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے ایک نئے رکن اور معروف صحافی کا اسلام سے متعلق دیا گیا ایک متنازعہ بیان ایک نئی بحث کی وجہ بن گیا ہے۔ اس جرمن صحافی نے اسلام کو نازی ازم کے مماثل قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2R02x
Deutschland Köln Rechtspopulisten Demo gegen Moscheen
اے ایف ڈی اسلام اور مہاجرین کی آمد کی مخالفت کے نام پر اب تک کافی مقبولیت حاصل کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

وفاقی دارالحکومت برلن سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس صحافی کا نام نکولاؤس فَیسٹ ہے، جو 2014ء تک کثیر الاشاعت جرمن اخبار ’بِلڈ‘ سے وابستہ تھے۔ دو سال قبل Nicolaus Fest نے اس جرمن روزنامے سے اپنا تعلق اس وقت ختم کر دیا تھا، جب ان کے لکھے ہوئے ایک متنازعہ اسلام مخالف اداریے پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

اس صحافی نے جمعرات چھ اکتوبر کو برلن میں قوم پسند سیاسی پارٹی ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ یا اے ایف ڈی (AfD) میں اپنی شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے جو پریس کانفرنس کی، اس میں فَیسٹ نے اسلام کو نازی ازم کے مماثل قرار دیتے ہوئے کہا، ’’اسلام ایک مذہب کم ہے اور ایک مطلق العنان تحریک زیادہ۔‘‘

اس موقع پر واضح طور پر اسلام مخالف سوچ کے حامل اے ایف ڈی کے اس نئے رکن نے کہا، ’’ہمیں اس نظریے پر عوامی سطح پر عمل درآمد کو ہر حال میں روکنا ہو گا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے میں جرمنی میں عوامی مقامات پر سواستیکا یا دیگر نازی علامات بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘

Deutschland Mainz Plakat der AfD bei Pegida Demo
’متبادل برائے جرمنی‘ کا ایک احتجاجی مظاہرہ: وطن پرستی کے نام پر دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاستتصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

فَیسٹ نے صحافیوں کو بتایا، ’’اگر میں نازی سوچ کی مظہر کوئی علامات جرمنی میں پبلک مقامات پر نہیں دیکھنا چاہتا، تو اسی طرح میں عوامی زندگی میں کسی دوسرے مطلق العنان نظریے کی نمائندہ علامات بھی نہیں دیکھنا چاہوں گا۔‘‘

جرمنی میں، جہاں نازی دور کی علامات کا اظہار، ان کی نمائش یا نازی سوچ کے حامی نعرے لگانا بھی قانوناﹰ منع ہے، نکولاؤس فَیسٹ کثیر الاشاعت جریدے ’بِلڈ‘ کے ڈپٹی چیف ایڈیٹر تھے اور دو سال قبل انہیں اپنی ان ذمے داریوں سے اس لیے علیحدہ ہونا پڑا تھا کہ انہوں نے اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا: ’’اسلام جرمنی میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔‘‘

Bildergalerie 60 Jahre Bild Smartphone Gebühr 2009
نکولاؤس فَیسٹ 2014ء تک روزنامہ ’بِلڈ‘ کے ڈپٹی چیف ایڈیٹر تھےتصویر: picture-alliance/dpa

اپنے اسی اداریے میں نکولاؤس فَیسٹ نے تب یہ بھی لکھا تھا کہ جرمنی میں ’اسلامی پس منظر کے حامل تارکین وطن میں جرائم کے ارتکاب کی شرح مقابلتاﹰ بہت زیادہ‘ ہے اور مبینہ طور پر ’اسلام خواتین اور ہم جنس پرست افراد کی تذلیل‘ بھی کرتا ہے۔

ان خیالات کے اظہار کے بعد تب فَیسٹ کے سینیئر ساتھیوں اور اخبار کی انتظامیہ نے ان کی سوچ سے دوری اختیار کر لی تھی، جس پر نکولاؤس فَیسٹ نے اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ وہ فری لانس جرنلزم کریں گے۔

اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی جرمنی کی قوم پسند سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی نے اپنی سیاسی تحریک کا آغاز 2013ء میں یورپی مشترکہ کرنسی یورو کی مخالف ایک جماعت کے طور پر کیا تھا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل اسلام اور جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی مخالف بھی ہوتی چلی گئی۔

اے ایف ڈی اب تک مختلف صوبائی انتخابات کے نتیجے میں جرمنی کے کل سولہ میں سے دس صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی حاصل کر چکی ہے اور امکان ہے کہ اگلے برس ہونے والے وفاقی جرمن الیکشن کے نتیجے میں وہ وفاقی پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں بھی نمائندگی حاصل کر لے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں