1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام مخالف مظاہرین جرمن چانسلر میرکل پر برہم

عاطف توقیر6 اکتوبر 2015

ہزاروں اسلام مخالف مظاہرین نے مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں چانسلر میرکل کی جانب سے مہاجرین کو جرمنی میں خوش آمدید کہنے کے اقدامات کے خلاف احتجاج کیا۔ ان مظاہرین نے میرکل کو ’غدار‘ قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/1GjFs
Deutschland Pegida-Demonstration in Dresden
تصویر: picture-alliance/dpa

پیر کے روز ڈریسڈن میں ہزاروں اسلام مخالف مظاہرین نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ یہ مظاہرین وفاقی چانسلر میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں پر سراپا احتجاج تھے۔ انتہائی دائیں بازو کے یہ مارچ کرتے ہوئے مظاہرین چانسلر میرکل کو ’غدار‘ اور ’جرمن عوام کی مجرم‘ جیسے الفاظ سے پکار رہے تھے۔

یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت جرمنی رواں برس مختلف خطوں میں خانہ جنگی اور غربت کے شکار قریب ایک ملین مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کی توقع کر رہا ہے، جس پر مہاجرین مخالف گروہ اور اسلام مخالف تنظیم پیگِیڈا (PEGIDA) کے ارکان سخت برہم ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈریسڈن میں ہونے والے اس بڑے مظاہرے میں ایک بینر پر تحریر تھا، ’’میرکل جرمن نسل کے خاتمے کی کوشش کی مجرم ہیں۔‘‘

Deutschland Dresden Pegida Demonstration
یہ تنظیم ایک مرتبہ پھر طاقت پکڑ رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik

ڈریسڈن میں قریب ایک برس قبل اسلام اور مہاجرین مخالف تنظیم پیگِیڈا نے جنم لیا تھا اور اب اس کی یہ کوشش ہے کہ یہ مہاجرین سے متعلق جرمن حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کر کے عوامی ہمدردیاں حاصل کرے۔

اس موقع پر پیگِیڈا کے 42 سالہ شریک بانی لُٹس باخ مان بھی موجود تھے، جن پر ابھی پچھلے ہفتے ہی مہاجرین کے خلاف نسل پرستانہ اور نفرت انگیز الفاظ استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ باخ مان نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ’جانور‘، ’کچرا‘ اور ’گندگی‘ جیسے الفاظ سے پکارا تھا۔

پیر کے روز ڈریسڈن میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے باخ مان کا کہنا تھا، ’’یہ (بحران) ڈیڑھ یا دو ملین (انسانوں) پر ختم نہیں ہو گا۔ ان کے بعد ان کی بیویاں آئیں گی، پھر ان کے دو یا تین بچے۔ ان افراد کا معاشرے میں انضمام ایک ناممکن عمل ہے۔‘‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک بینر پر انگیلا میرکل کو نازی یونیفارم میں بھی دکھایا گیا تھا، جس پر سواستیکا کے نشان کو یورو کے نشان سے تبدیل کیا گیا تھا۔

اس مظاہرے میں ’اسلام یورپ کے لیے خودکشی ہے‘ اور ’غداری جرم ہے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے، جب کہ مظاہرین نے برقعہ پوش خواتین کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں، جن کے سر پر یورپی یونین کا جھنڈا بنایا گیا تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس مظاہرے میں شریک ایک خاتون کا کہنا تھا، ’’جب جوان اور صحت مند شخص جنگ زدہ علاقے سے بھاگ نکلتا ہے، تو اسے مہاجر نہیں بزدل کہتے ہیں۔‘‘

اس موقع پر ایک پلے کارڈ پر یہ تک تحریر تھا، ’’ان ڈیڑھ ملین افراد میں کتنے ISIS کے عسکریت پسند ہیں؟‘‘

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس جنم لینے والی تنظیم پیگِیڈا ہر پیر کے روز ڈریسڈن میں اپنے مظاہروں کا انعقاد کرتی ہے، جن میں شروع میں محض چند سو افراد ہی شریک ہوا کرتے تھے، تاہم بعد میں یہ تعداد 25 ہزار تک بھی دیکھی گئی۔ لیکن اس تنظیم کے مظاہروں کے جواب میں ان کی ناقد تنظیموں کی طرف سے ان سے بھی بڑے مظاہرے جرمنی بھر کے مختلف شہروں اور قصبوں میں دیکھے گئے۔

رواں برس کے آغاز پر اس تنظیم کو قدرے نقصان پہنچا، جب تنظیم کی قیادت میں پھوٹ پڑ گئی اور باخ مان کے مہاجرین مخالف نعرے پر شدید تنقید کی گئی اور باخ مان نے بھی فیس بک پر اپنی ایسی تصاویر پوسٹ کیں، جن میں وہ اڈولف ہٹلر کی مونچھوں اور بالوں کے اسٹائل میں نظر آیا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس دم توڑتی ہوئی تنظیم میں مہاجرین کے سیلاب کی جرمن آمد نے ایک مرتبہ پھر نئی روح پھونک دی ہے اور اس کے مظاہروں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ڈریسڈن میں اس تنظیم کے مظاہرے میں قریب دس ہزار افراد دیکھے گئے تھے۔