اسلام اور نظریہ حقوق نسواں
3 دسمبر 2008اسلامی تعلیمات میں عورت کو برابری کے حقوق دئیے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چودہ سو سال بعد بھی مسلمان عورت زمانہ جاہلیت کی ان فرسودہ روایات سے لڑ رہی ہے۔ اسلام کے نام پر زن بیزاری کی بد ترین مثال افغانستان میں طالبان حکومت کے دور عہد میں پوری دنیا نے دیکھی اور اسے ہی اسلام کا روپ سمجھا۔ اکیسیویں صدی کی مسلمان عورت ان حقوق کو پانے کے لیے جدو جہد کر رہی ہے جن کا اس سے چودہ سو سال پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔
مسلم خواتین کی طرف سے اسلامی تحریک نسواں یا اسلامک فیمینزم کے تصور کو زیر بحث بنایا جا رہا ہے۔ اس بحث کا مقصد اسلام سے مطابقت یا آہم آہنگ نظریات نسواں کی بنیاد پر خواتین کو برابری کے حقوق ہیں۔ صنف اور جنس کو بنیاد بنائے بغیرذاتی اور سماجی سطح پر برابری کے حقوق ، حقوق یعنی انصاف کو بنیاد بنائے جانے کی بات،
اسلام اور نظریہ تحریک نسواں، ’’ہم آہنگ یا متصادم‘‘ ایک ایسی ہی بحث کا اہتمام جرمن شہر ہنوور میں چند روز قبل کیا گیا۔ تین روزہ اس سیمینار میں اسلام، خواتین اور یورپ زیر بحث رہا ۔ شرکا ء میں ترکی، مصر ، امریکہ ، اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے خواتین اور مردوں تھے۔
انقرہ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر Mualla Selcuk کے مطابق اسلام اور نظریہ حقوق نسواں کے حوالے سے کہتی ہیں : ’’میرے خیال میں اسلام کو مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے اور جدیدیت کے تقاضوں پر پورا اترنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسلام جو ایک عالمگیرمذہب ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وقت اور حالات کے سیاق و سباق میں بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر Margot Badran مصر میں پچھلی کئی دہائیوں سے آباد ہیں اور اسلامی معاشروں میں خواتین کے کردار پر تحقیقی کام کرتی ہیں۔ ’’ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بد قسمتی سے ہم سب اپنے اپنے بیانات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ان طریقوں میں الجھے ہوئے ہیں جن سے ہم تاریخ کو سمجھتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں ،اس کی تشریح کرتے ہیں۔ اور یہ ہم غیر رسمی طریقے سے کرتے ہیں ، تربیت اور اپنے کام کے ذریعے۔ ‘‘
ڈاکٹر بدران کے مطابق اسلام عورت کے برابری کے حقوق کا داعی ہے۔ اسلامی نظریہ حقوق نسواں روز اول سے ہی ایک عالمگیر نظریہ ہے ۔