اسلام آباد میں وفاقی وزیر پر قاتلانہ حملہ، بال بال بچ گئے
2 ستمبر 2009عینی شاہدین کے مطابق دو حملہ آوروں نے انتہائی قریب سے حامد سعید کاظمی پر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں ان کا ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ حامد سعید کاظمی کو بائیں ٹانگ پر ایک گولی اوران کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کو تین گولیاں لگیں۔ حملے کے بعد زخمیوں کو قریب ہی واقع ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا، جہاں پر ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے وفاقی وزیر کی ٹانگ سے گولی نکال دی۔
ہسپتال کے عملے کے مطابق وفاقی وزیر کی حالت خطرے سے باہر ہے جبکہ زخمی گن مین کی حالت تشویش ناک ہے۔ حملے کے فوراً بعد وفاقی وزراء کی بڑی تعداد ہسپتال پہنچ گئی، جہاں پر بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا: ’’یہ واردات کرنے والے دو موٹر سائیکل سوار لڑکے تھے، یہ ایک بہت عام ٹارگٹ ایکشن تھا اگر موٹر سائیکل سوار حملے کی غرض سے تاک میں بیٹھ کر کسی پر بھی حملہ کرنا چاہیں توکوئی بھی شخص ان کا نشانہ بن سکتا ہے۔‘‘
اگرچہ وزیر داخلہ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اس حملے میں ملوث ملزمان کو جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا تاہم اپوزیشن جماعتیں اور مذہبی حلقے اس حملے کو بھی سیکیورٹی کی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔اس حوالے سے معروف عالم دین مفتی منیب الرحمن نے کہا: ’’یہ حکومت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ ایک وفاقی وزیر اسلام آباد جیسے شہر میں دہشت گردوں سے محفوظ نہیں، وہ اپنے دفتر سے گھر بحفاظت نہیں جا سکتا تو باقی ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال اور اس کا معیار کیا ہوگا۔‘‘
تاہم عسکری امور کے ماہرین کا اصرار ہے کہ موجودہ حالات میں ایسے حملوں کو روکنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ ماہرین اس واردات کے ڈانڈے سوات اور وزیرستان میں طالبان کے خلاف جاری آپریشن سے بھی ملا رہے ہیں کیونکہ حامد سعید کاظمی مختلف تقاریب میں طالبان کے شدت پسند اسلامی نظریات کی مخالفت کے ساتھ ساتھ خودکش حملوں کی بھی مذمت کرتے رہے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر