اسلام آباد میں دو روزہ پاک بھارت مذاکرات مکمل
27 دسمبر 2011اعلامیے کے مطابق دونوں جانب سے معاہدہ لاہور کی روشنی میں اعتماد سازی کے موجودہ اقدامات کے نفاذ اور مضبوطی کے حوالے سے نظرثانی کی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے اعتماد سازی کے اضافی اقدامات کے لیے مواقع بھی تلاش کیے جائیں گے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کی 27 جولائی 2011ء کو نئی دہلی میں ہونے والی ملاقات میں کیے گئے معاہدے کی روشنی میں جوہری اعتماد سازی سے متعلق چھٹے دور کے مذاکرات مکمل کیے گئے۔
پاکستان کے ایک سابق سفیر اور امور خارجہ کے ماہر علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں جوہری اعتماد سازی کے معاملے پر مذاکرات انتہائی اہم ہیں۔ انہوں نے کہا، ’اگر فرض کیا جائے کہ وہ حالت ہوئی کہ ہمیں جوہری جنگ کرنا پڑی تو وہ ہم دونوں کے لیے تباہ کن ہے بلکہ ہم نیست و نابود ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں ہمیں اس شعبے میں اعتماد سازی کے اقدامات ضرور اپنانے چاہیئں۔ پاکستان نے جوہری تحمل رکھنے کی تجویز بھی پیش کی ہوئی ہے اور ہمیں یہ سب کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس پر کام کرنا چاہیے‘۔
دفتر خارجہ کے اعلامیے کے مطابق مذاکرات انتہائی دوستانہ اور مثبت ماحول میں ہوئے اور ان میں ہونے والی پیشرفت سے دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کو آگاہ کیا جائے گا۔
دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق بھارتی وفد نے پاکستانی مذاکرات کاروں پر ماضی کی طرح اس بار بھی ’پہلے جوہری حملہ نہ کرنے‘ کا اعلان کرنے پر زور دیا۔ خیال رہے کہ بھارت پہلے جوہری حملہ نہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ تاہم علی سرور نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسی جوہری طاقت کے لیے پہلے حملہ نہ کرنے کا اعلان درست اقدام نہیں کیونکہ یہ ان طاقتوں کے لیے ہے جو بڑے پیمانے پر جوہری صلاحیت کی حامل اور ہتھیاروں کی تیاری کر رہی ہوں۔
انہوں نے کہا، ’پاکستان تو جوہری قوت بنا ہی اس لیے تھا کہ بھارت نے جوہری ٹیسٹ کیے تھے۔ ورنہ ہماری صلاحیت جوہری ہتھیار بنانے کی 1983ء میں ہو گئی تھی۔ لیکن ہم نے98 ء میں تجربہ کیا۔ کیونکہ بھارت نے ہم سے پہلے جوہری تجربہ کیا تھا، تو ہم اس صلاحیت کو اپنی حفاظت کے طور پر رکھیں گے اور ہم پہلے حملہ نہ کرنے کی شرط کو نہیں ماننا چاہتے۔’’
چار سال کے وقفے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کے تجربات کی پیشگی اطلاع اور جوہری اثاثوں کی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے تعاون پر بھی غور کیا گیا۔
دفتر خارجہ کے ذرائع کے بقول مذاکرات میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور اس سلسلے میں اطراف کے فوجی کمانڈروں کے درمیان ہاٹ لائن کو مزید فعال بنانے پر بھی بات چیت ہوئی۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں