1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد میں داعش کے لہراتے جھنڈے کیا لمحہ فکریہ نہیں؟

صائمہ حیدر
25 ستمبر 2017

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ پر جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے جھنڈوں کی موجودگی نے حکومت کے اس دعوے پر سوال اٹھا دیے ہیں کہ ملک میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔

https://p.dw.com/p/2kfUf
Islamischer Staat Logo Flagge Fahne

 ملک کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ کے اقبال نامی پُل پر پائے جانے والے داعش کے جھنڈے پر انگریزی زبان میں ایک عبارت درج تھی، جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے،’’ خلافت آ رہی ہے۔‘‘ پاکستان میں داعش موجود ہے یا نہیں اس حوالے سے حتمی طور پر تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں داعش کے حمایتی یا ہم خیال گروپ ضرور موجود ہیں۔

پاکستان میں نوجوان صحافی اعزاز  سید نے اس ضمن میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس شدت پسند تنظیم کے جھنڈے کی  اسلام آبا دکے ایک پل پر موجودگی کی اطلاع سب سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ایک مدرسے کے طالب علم نے دی، جو کسی کام سے وہاں سے گزر رہا تھا۔

 اعزاز سید کا کہنا تھا،’’ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ دیگر  عسکریت پسند گروہوں مثلاﹰ القاعدہ، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ کی ورک فورس زیادہ تر دیہاتی علاقوں سے آتی تھی لیکن یہاں دو باتیں اس میں بڑی واضح ہیں، ایک تو یہ کہ داعش عملی طور پر شہری علاقوں کی تنظیم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں اگر داعش کا جھنڈا بھی لگ جائے تو اس کی اہمیت وہی ہے جیسے کسی دوسری جگہ پر بڑی دہشت گردانہ کارروائی کر کے توجہ حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘ اعزاز سید نے مزید کہا کہ اس کارروائی کا مقصد عسکریت پسند حلقوں میں اپنی اہمیت بتانا ہے اور یہ بھی باور کروانا ہے کہ داعش وہاں موجود ہے۔

اسی حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ داعش کے جھنڈوں کی اسلام آباد میں موجودگی یقینی طور پر حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ زاہد حسین کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں داعش کے نام سے کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

حسین نے ڈی ڈبلیو سے فون پر بات چیت میں مزید کہا،’’ اس سلسلے میں کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ تاہم باوجود اس کے کہ تنظیم کی کوئی واضح موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، لیکن اس کی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں اور ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ اس گروپ کے لیے بھرتی بھی جاری ہے۔ زاہد حسین کا موقف تھا کہ بعض چیزیں دیکھنے کے باوجود بھی آنکھیں بند کیے رکھنے کا جو حکومتی رویہ ہے، اس کا بھی اس صورتِ حال کے پیدا ہونے میں بڑا عمل دخل ہے۔

حسین کے بقول،’’ تین سال قبل جب شام کے بڑے علاقوں میں داعش کا قبضہ ہو گیا تھا تب اسلام آباد کی لال مسجد سے ملحق مدرسہ حفصہ سے داعش کے سربراہ کے نام ایک ویڈیو پیغام پکڑا گیا تھا لیکن حکومت نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔‘‘

   دہشت گرد تنظیموں کے موضوع پر گہری نظر رکھنے والے تجربہ کار صحافی اشتیاق محسود نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ داعش کی جانب سے پاکستان کے دارالحکومت میں اپنا جھنڈا لگانے کا مقصد پاکستانی میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کرنا تھا جس میں وہ کامیاب رہی ہے۔ گو پاکستان میں اس انتہا پسند تنظیم کو اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں مل رہا لیکن یہ اپنے چند حامیوں کی مدد سے وقتاﹰ فوقتاﹰ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے مختلف حربے ضرور آزماتی رہتی ہے۔‘‘

محسود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ خراسان کے نام سے تنظیم کی بنیاد شدت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان سے منحرف کمانڈر حافظ سعد خان نے رکھی تھی، جس کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی سے تھا۔ محسود کے مطابق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے وہ ارکان جن کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب سے ہے، وہ بھی اس تنظیم میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔