اسلام آباد میں خودکش حملہ
6 جون 2009اس دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے ایک پولیس اہلکار موقع پر جبکہ دوسرا ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا ۔ امدادی کارروائیوں میں مصروف رضا کاروں نے دھماکے کے چار زخمیوں کو فوراً قریبی پمز ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ اس موقعہ پر پہنچنے والے ڈی آئی جی آپریشنز بنیامین نے ذرائع ابلاغ کو خودکش حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ’’ خودکش حملہ آور نے ریسکیو 15کے دفتر میں پچھلی سائیڈ سے داخل ہونے کی کوشش کی ہے۔ سنتری نے اس پر فائر کیا ہے جس سے کے باعث دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے نائب محرر منور شہید ہوا اور انور ، صلاح الدین ، طارق اور رمضان زخمی ہوئے ہیں ان میں ایک شدید زخمی ہے باقی معمولی زخمی ہیں۔‘‘
ریسکیو 15کے قریب رہائشی فلیٹوں کے ایک مکین نے خودکش حملے کی روداد سناتے ہوئے بتایاکہ’’ ایک دھماکہ ہوا جس کے بعد بہت تیز فائرنگ ہوئی ہے تین چار منٹ فائرنگ کی آوازیں آتی رہی ہیں۔ گھر کی چھت سے ہم دیکھ رہے تھے کہ وہاں بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔‘‘
ادھر صدر آصف علی زرداری،وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور تمام حکومتی عہدیداروں نے اسلام آباد میں پولیس کے دفتر پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے خودکش حملے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا:’’ یہ اس شکست کا ردعمل ہے جس کا عسکریت پسندوں کو سامنا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت ہی بزدلانہ حملہ تھا اس کے ساتھ ساتھ میں اپنی پولیس کے ان نوجوانوں کو داد دیتا ہوں جنہوں نے اس کو دیکھتے ہی گولی ماری اور اس کو عمارت میں داخل ہونے سے روکا۔ اگر خودکش حملہ آور عمارت میں داخل ہو جاتا تو اس وقت عمارت میں 70 سے 80 لوگ موجود تھے جس سے بہت بڑا نقصان ہوتا۔‘‘
تجزیہ نگاروں کے خیال میں ملکی تاریخ کے سخت ترین حفاظتی اقدامات کیے جا نے اکے باوجود اسلام آباد کے دل میں خودکش حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشتگردوں کا نیٹ ورک انتہائی فعال ہے اور اسے توڑنے کےلئے حکومت کو مزید بہتر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر