1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شام میں متعدد محاذوں پر پسپائی کا سامنا

عابد حسین10 اپریل 2016

شام کے بڑے علاقے پر قابض عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو کئی اطراف سے مخالف قوتوں کی چڑھائی کا سامنا ہے۔ ان قوتوں میں شامی فوج، کرد ملیشیا اور اسد مخالف باغی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ISlb
تصویر: Reuters/Rodi Said/Files

خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں خود ساختہ خلافت قائم کرنے والے شدت پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو کم از کم تین جانب سے مخالفین کی چڑھائی کا سامنا ہے۔ شامی صدر بشارالاسد کی فوج جدید روسی اسلحے کے ساتھ تازہ دم دکھائی دیتی ہے اور اُس کو روسی و شامی جنگی طیاروں کا سہارا بھی حاصل ہے۔ قدیمی و تاریخی شہر پالمیرا پر قبضے کے بعد شامی فوج اب دور دراز کے علاقوں پر نگاہ جمائے ہوئے ہے۔ فوج کے حکمت عملی کے ماہرین اب خود ساختہ خلافت کے مرکز الرقہ تک پہنچنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔

شامی فوج کے علاوہ اسد حکومت کے مخالف باغی بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کو پیچھے دھکیلنے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ ان میں النصرہ فرنٹ بھی شامل ہے۔ گزشتہ چھ ہفتے سے جاری کمزور جنگ بندی میں ’اسلامک اسٹیٹ اور النصرہ فرنٹ پر امریکی عسکری اتحاد اور روسی فضائیہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کرد ملیشیا ہے اور وہ بھی الحسکہ کے اطرف سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کو باہر نکالنے کے بعد آگلی منزل پر پہنچنے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔

Syrien IS Parade in Rakka
اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو شام میں مشکل حالات کا سامنا ہےتصویر: Reuters

پالمیرا کے بعد جہادیوں کو القریتین کے اسٹریٹیجک قصبے سے شامی فوج نے شکست دے کر باہر کر دیا ہے۔ یہ علاقے حمص کے قریب ہیں اور اِس حصے میں شامی فوج پیش قدمی کر رہی ہے۔ شمالی صوبے حلب میں ترکی اور امریکا کے حمایت یافتہ باغی آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں الرائی کے بڑے قصبے پر قبضہ کیا ہے۔ الرائی ہی ترکی میں داخل ہونے والے جہادیوں کا دروازہ خیال کیا جاتا ہے۔ النصرہ فرنٹ اور اُس کے اتحادیوں نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرقبضہ تین قصبوں پر کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ کردش سیرین ڈیموکریٹک فورسز الحسکہ صوبے کے کئی مقامات پر قابض ہو چکی ہے اور اب تیل سے مالامال علاقے دیرالزور پر قبضے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔

برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی کے شامی امور کے ماہر تجزیہ نگار تھامس پیئریٹ کا کہنا ہے کہ تینوں گروپ ہر ممکن کوشش میں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر تسلط جمایا جا سکے اور اِس میں مقبوضہ علاقے ’اسلامک اسٹیٹ‘ ہی کے نہیں بلکہ سبھی گروپ ایک دوسرے کو پسپائی دینے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ پیئرٹ کے مطابق پالمیرا پر قبضے کے بعد شامی حکومت کو مذاکرات میں اہمیت ضرور حاصل ہوئی ہے اور اِس وقت ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑائی میں مصروف تینوں فریق ایک ایک انچ پر قبضہ جمانے کی فکر میں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید