اسرائیل کی دفاعی سیاست، بنیادی تبدیلیاں ضروری
15 دسمبر 2011اسرائیلی سیاستدان اور فوجی ماہرین لبنان، شام اور شمال میں واقع دیگر ہمسایہ ریاستوں کی صورت حال پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی دفاعی سیاست میں فوری اور بنیادی تبدیلیاں لائی جانا چاہییں۔
یہ بات روز روز دیکھنے میں نہیں آتی کہ اسرائیل کے فوجی امور کے Uzi Rubin جیسے ماہر فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کا حوالہ دیں۔ لیکن اُوزی رُوبن کے بقول حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ اب کوئی بھی نئی جنگ خطے میں بالکل نئی طرح کی جنگ ہو گی۔ ایک ایسی لڑائی جو باقاعدہ جنگ اور جنگی نوعیت کی گوریلا کارروائیوں کا امتزاج ہو گی۔
اسرائیلی کمزوری
اُوزی رُوبن کے مطابق مشرق وسطیٰ کے خطے میں اب اگر دوبارہ کوئی نئی کشیدگی پیدا ہوئی تو اسرائیل کو بس ایک ہی بات سے خوفزدہ ہونا ہو گا، یعنی راکٹ۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس لیے کہ اس خطرے کا اسرائیل کے پاس ابھی تک کوئی مؤثر جواب نہیں ہے۔ جنگی طیاروں اور زمینی دستوں کی مدد سے کیے جانے والے حملوں کے خلاف ہم پوری طرح تیار ہیں۔ لیکن راکٹوں سے حملوں کے خلاف ہمارا دفاع ابھی تک اچھا نہیں ہے۔‘‘
حزب اللہ نے ایسے راکٹ نہ تو زیادہ آبادی والے علاقوں میں چھپا رکھے ہیں اور نہ ہی وہ زیادہ گنجان آباد علاقوں سے فائر کیے جاتے ہیں۔ نومبر کے آخر میں اور پھر ایک مرتبہ اس ہفتے کے دوران بھی ایسے راکٹ لبنان سے اسرائیل کی طرف فائر کیے گئے۔ ایسا قریب دو سال تک قدرے سکون رہنے کے بعد پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا۔
ان میں سے نومبر میں فائر کیے گئے راکٹ صرف مادی نقصان کا باعث بنے اور ایک گیس اسٹیشن ان کی زد میں آیا لیکن کوئی شخص زخمی نہیں ہوا تھا۔ اس ہفتے جو راکٹ فائر کیے گئے، ان میں سے ایک لبنان کے اندر ہی سرحدی علاقے میں گرا۔
خطرات میں اضافہ
اُوزی رُوبن اسرائیلی وزارت دفاع کے راکٹوں سے حملوں کے خلاف بچاؤ سے متعلقہ امور کے ایک سابقہ ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اسرائیل کو درپیش خطرات میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ ان کے بقول گزشتہ چند برسوں کے دوران لبنان میں حزب اللہ کے پاس موجود راکٹوں کے ذخیرے میں چار گنا سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔
اسرائیل کے دفاعی اسٹریٹیجی کے اس ماہر کے مطابق خطرہ صرف حزب اللہ سے ہی نہیں جو ان کے بقول لبنان میں ایران کی نمائندہ فوج ہے بلکہ دوسرا خطرہ شام سے بھی ہے، جہاں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک بھی اپنے اندر خطرہ لیے ہوئے ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’یہ خطرہ اس لیے ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں شامی ہتھیاروں کا ذخیرہ حزب اللہ اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں میں آ سکتا ہے۔‘‘
اُوزی رُوبن کے مطابق اب یہ کام اسرائیلی سیاستدانوں کا ہے کہ وہ کافی ثابت ہو سکنے والے دفاعی راکٹ نظام کے لیے مالی وسائل مہیا کریں۔
رپورٹ: کرسٹیان واگنر، تل ابیب / مقبول ملک
ادارت: امجد علی