اسرائیل میں مہنگائی کے خلاف تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج
4 ستمبر 2011یروشلم اور تل ابیب سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تقریباً چار لاکھ افراد شریک ہوئے، جنہوں نے ایک مرتبہ پھر زیادہ سماجی انصاف کے حق میں آواز اٹھائی۔
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صرف تل ابیب ہی میں تقریباً تین لاکھ افراد سڑکوں پر نکلے تاہم منتظمین کی ایک ملین لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی توقع پوری نہیں ہوئی۔ ان مظاہروں میں کم ٹیکسوں اور تعلیم کے بہتر مواقع کے مطالبات کو مرکزی اہمیت دی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تل ابیب، یروشلم اور مختلف شہروں کی سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن میں سے ایک کی تحریر یہ تھی: ’’پوری نسل مستقبل کی متمنی ہے۔ عوام سماجی انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘
مظاہروں میں شریک اسرائیل کی گرین پارٹی کے ایک کارکن Amir Rochman نے کہا: ’’آج رات تاریخی احتجاج کے عروج کا لمحہ ہے۔‘‘
مظاہروں میں شریک نیشنل اسٹوڈنٹ یونین کے سربراہ Itzik Shmuli نے کہا: ’’اسرائیل ہمیشہ ہی ایسا نہیں رہے گا۔ ہمارے نئے اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ حکومت حقیقی تبدیلی کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ان مظاہروں نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر اقتصادی اصلاحات کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ نیتن یاہو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ مظاہرین کے تمام مطالبات پورے نہیں کر پائیں گے، جن میں ٹیکسوں میں کمی سے لے کر مفت تعلیم کے منصوبوں کی توسیع اور حکومتی رہائشی منصوبوں کے لیے اضافی بجٹ شامل ہے۔
منتظمین نے نچلے درجے سے شروع ہونے والی تحریک سے جڑے اس احتجاج کو ’سچائی کا لمحہ‘ قرار دیا۔ اس حوالے سے مظاہروں نے جولائی سے زور پکڑا۔
خیال رہے کہ احتجاج میں مظاہرین کی اس بھاری تعداد میں شرکت عام طور پر اس وقت ہوتی ہے، جب یہ امن و جنگ سے متعلق ہوں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی