اسرائيل: انتہا پسند پارٹی کا قانونی مسودہ ناکام
21 جولائی 2011اسرائيل کی دائيں بازو کی انتہا پسند جماعت ’ہمارا گھر اسرائيل‘ کی طرف سے انسانی حقوق کی تنظيموں کے مالی معاملات کی چھان بين کے ليے پارليمانی کميٹياں تشکيل دينے کے قانونی مسودے پر اسرائيلی پارليمنٹ ميں چھ گھنٹے تک بحث ہوتی رہی۔ اس قانون کو مخلوط حکومت ميں شامل دونوں بڑی پارٹيوں، وزير اعظم بنجمن نيتن ياہو کی ليکود پارٹی اور وزير خارجہ ليبر من کی ’بيت نُو‘ پارٹی نے پارليمنٹ ميں منظوری کے ليے پيش کيا تھا۔ اس قانونی مسودے ميں يہ بھی کہا گيا تھا کہ پارليمانی کميٹيوں کو يہ چھان بين کرنے کا اختيار بھی ديا جائے گا کہ کيا انسانی حقوق کی تنظيموں نے اسرائيلی مسلح افواج کی ساکھ کو نقصان پہنچايا ہے۔۔
اسرائيلی رائے عامہ اور حقوق انسانی کی تنظيموں کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد بائيں بازو کے تکليف دہ دھڑے کے خلاف قدم اٹھانا اور ناقدين کا منہ بند کرنا تھا۔ اپوزيشن کی ليبر پارٹی کے رکن پارليمان اساک ہرسوگ نے بھی يہی کہا: ’’فاشسٹ رياستوں کی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے اور اس کے ذمے دار وزير اعظم نيتن ياہو ہيں کيونکہ وہ اپنے ساتھی ليبر من کو بار بار انتہا پسندانہ قوانين بنانے کی کوشش کے مواقع ديتے ہيں۔‘‘
ليکن پارليمنٹ ميں رائے شماری ميں نا منظور کيے جانے والے اس قانون کے حاميوں کا کہنا ہے کہ اس بات کی اجازت نہيں دی جا سکتی کہ اسرائيل کے اندر ايسے گروپ ہوں، جو غير ممالک سے ملنے والی رقوم کی مدد سے ملک اور اس کی فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ليے کام کريں۔ دائيں بازو کے ان انتہا پسندوں کی مراد اس سے يہ ہے کہ انسانی حقوق کے حامی اسرائيلی گروپ بار بار بيرونی ممالک ميں اسرائيلی فوج اور سياستدانوں کے خلاف مقدمے دائر کرتے ہيں، جن ميں ان پر فلسطينيوں کے خلاف کارروائيوں ميں جنگی جرائم کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہيں۔
رپورٹ: ٹم آسمن، تل ابيب/ شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی