1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسحاق ڈار وہ عام آدمی دکھا دیں، جس پر ٹیکسوں کا اثر نہ پڑے‘

شکور رحیم، اسلام آباد2 دسمبر 2015

پاکستان میں حزب اختلاف کی تین بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کی جانب سے چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف مشترکہ احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HFrx
Pakistan Rupie
تصویر: AP

حزب اختلاف کی تین بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے منی بجٹ کو ظالمانہ قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے دوران احتجاج کریں گے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھر پور طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو عوام کے معاشی قتل کی اجازت نہیں دیں گے۔

تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ کا یہ دعوی مضحکہ خیز ہے کہ عام آدمی ان ٹیکسوں سے متاثر نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی بری معاشی کارکردگی کو چھپانے کے لئے نئے ٹیکسوں کا سہارا لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ’’اسحاق ڈار صاحب مجھے وہ عام آدمی دکھا دیں، جس پر ان نئے ٹیکسوں کا اثر نہ پڑھے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ بلآخر یہ عوام ہی ہیں جنہوں نے نالائق حکمرانوں کی غلط پالسیوں کا خمیازہ بھتگنا ہے۔ پہلے ہی عوام کو براہ راست اور بلواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ کے نیچے کچلا جا رہا ہے اور طاقتور مافیا آزاد ہے اور اب اوپر سے یہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ بھی غریب عوام پر ہی پڑ رہا ہے۔‘‘

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کے ساتھ ساتھ عوام کو سڑکوں پر لانے کے بارے میں بھی حکمت عملی طے کرے گی۔

اسی دوران پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی شازیہ مری، نفیسہ شاہ، اعجاز جاکھرانی اور مخدوم سید مصطفیٰ محمود نے نئے ٹیکسوں کے خلاف تحریک التوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادی جس میں اس معاملے پر ایوان میں باضابطہ بحث کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل منگل کے روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ’منی بجٹ‘ کے ذریعے اکسٹھ درآمدی اشیاء پر پانچ سے دس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور دو سو نواسی درآمدی اشیاء کی ڈیوٹی میں پانچ فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے دیگر ہزاروں درآمدی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کی مد میں ایک فیصد اضافہ کر کے چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’’نئے محصولات لگانے کا مقصد سال کے پہلے چار ماہ میں حاصل ہونے والی آمدنی کے انتالیس اعشاریہ آٹھ ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان ٹیکسوں کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔ بقول ان کے نئے ٹیکس پر تعیش اشیاء پر لگائے گئے ہیں۔

تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں پڑے گا یہ سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیر خزانہ صاف کیوں نہیں کہتے کہ وہ آئی ایم ایف کے دباؤ میں ہیں۔ آئی ایم ایف نے واضح کر دیا تھا کہ اگر نئے ٹیکس نافذ نہ کیے گئے تو پاکستان کو قرضے کی پانچ سو دو ارب ڈالر کی قسط نہیں مل سکے گی۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا، ’’اشیاء کی درآمدات پر نئے ٹیکسوں سے ہماری مقامی صنعت بھی بری طرح متاثر ہو گی کیونکہ ان نئے حکومتی ٹیکسوں سے اسمگلنگ میں اضافہ ہو گا اور جو لوگ پہلے قانونی طریقے سے درآمدات کر رہے تھے اب وہ افغانستان کے اور دیگر راستوں سے اسمگلنگ پر زور دیں گے۔ تو اس طرح حکومت شاید درآمدی بل کم کر لے لیکن یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ محصولات کا چالیس فیصد حصہ درآمدی اشیاء پر ٹیکس سے حاصل ہو رہا ہے جو اب متاثر ہو سکتا ہے۔‘‘

ادھر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد وزیر داخلہ نے کہا کہ ان نئے ٹکیسوں سے حاصل ہونے والی چالیس ارب روپے کی آمدن اندرون ملک بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی بحالی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہوگی۔ انہوں نے کہا حکومت نے صنعتوں، زراعت اور مقامی طور پر بننے والی تمام اشیاء پر ٹیکس نہیں لگائے البتہ کاسمیٹکس، چاکلیٹ، تیل، گھی اور ایک ہزار سی سی سے زائد کی نئی گاڑیوں پر پانچ سے دس فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کی ہے۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت مقامی تاجروں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گی کہ وہ ’منی بجٹ‘ کو بنیاد بنا کر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔