استنبول میں پہلی انسانیت دوست سربراہ کانفرنس
23 مئی 2016اس دو روزہ غیر معمولی اجلاس میں دنیا کے 60 سربراہان ریاست و مملکت حصہ لے رہے ہیں۔ یہ اجلاس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے طلب کیا گیا ہے۔ اس اجلاس کے ثمربار ثابت ہونے کے بارے میں بہت زیادہ امید نہیں کی جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں جنگ و بحران کے سبب 60 ملین انسان در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور کم از کم 125 ملین انسانوں کو امداد و تحفظ کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے استنبول میں ہونے والی پہلی عالمی انسانیت دوست سربراہ کانفرنس کے شرکاء متفقہ طور پر اس بارے میں سنجیدہ مذاکرات کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس سربراہی اجلاس کے میزبان ملک ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن اس موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے یورپ کو درپیش مہاجرین کے تاریخی بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی کی طرف سے اب تک کیے جانے والے اقدامات اور انقرہ حکومت کی خدمات کو اجاگر کریں گے۔ ترکی اس وقت 2.7 ملین شامی مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔
استنبول اجلاس کے آغاز سے پہلے ہی اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ سمٹ ایک مثالی موقع ہے دنیا بھر میں خونریز نتائج کا سبب بننے والے بحرانوں کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور اُن کے سد باب کے لیے نئے نقطہ نظر کی تلاش کا۔
اقوام متحدہ میں انسانیت دوست امور کے نائب سیکرٹری جنرل اسٹیفن او برائن کا اس سربراہی اجلاس کے بارے میں کہنا تھا، ’’یہ ایک نسل میں ایک بار ملنے والا موقع ہے جس میں ہم دنیا کے سب سے کمزور افراد کے دکھ دور کرنے اور انہیں دکھوں سے بچانے کے اپنے طریقے کو دور رس ایجنڈہ اور حوصلہ مندانہ منصوبے کے تحت عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس ديگر اجلاسوں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں کسی مالی تعاون کا وعدہ شامل نہیں ہے بلکہ اس میں بحران سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ژاں الیاسون کے بیان سے بھی ایسے ہی خیالات کی بازگشت سنائی دی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں بحرانوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل کے حل کے لیے ان کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ہوگا۔ ہم بحران کی وجوہات سے نمٹنے میں بڑی تاخیر سے کام لیتے ہیں جبکہ ان کی روک تھام کے لیے بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔‘‘