1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اب يہاں رہتا ہوں تو لازمی ہے کہ مدد بھی کروں‘

عاصم سليم6 جون 2016

جرمنی ميں آنے والے حاليہ سيلابی سلسلے کے نتيجے ميں سينکڑوں مکانات تباہ ہو چکے ہيں۔ بارشوں اور سيلاب سے متاثرہ ايک شہر سمباخ بھی ہے جہاں سيلاب کے بعد صفائی ستھرائی کے کام ميں پناہ گزينوں نے مقامی لوگوں کا ساتھ ديا۔

https://p.dw.com/p/1J1Ij
تصویر: DW/B. Schülke

جنوبی جرمنی ميں گزشتہ ہفتے آنے والے سيلاب کے نتيجے ميں پانچ سو مکانات اور درجنوں ديگر تنصيات تباہ ہو چکی ہيں۔ ڈسٹرکٹ ايڈمنسٹريٹر ميشائل فامولر نے بتايا ہے کہ علاقے ميں قريب دو سو پُل بھی بری طرح متاثر ہوئے ہيں اور کئی مقامات پر سڑکيں اب ناکارہ ہو چکی ہيں۔ علاقائی انتظاميہ کے اندازوں کے مطابق حاليہ بارشوں اور سيلاب کے نتيجے ميں نقصانات کا حجم قريب ايک بلين يورو ہے۔ اس دوران کم از کم پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہيں۔

سيلاب سے متاثرہ جنوبی صوبے باويريا کے چھوٹے سے شہر سمباخ ميں البتہ امدادی کاموں اور سيلابی ريلے کے گزر جانے کے بعد صفائی ستھرائی کے کاموں ميں مہاجرين بھی کافی سرگرم دکھائی ديے۔ ڈوئچے ويلے کی رپورٹر بريجيٹا شُلکے سمباخ ميں موجود تھيں اور وہ بتاتی ہيں کہ شہر کی صفائی ميں مصروف تقريباً ايک ہزار رضاکاروں ميں چاليس تارکين وطن بھی شامل تھے۔

زين قريب دس ماہ قبل شام سے سمباخ پہنچا تھا
زين قريب دس ماہ قبل شام سے سمباخ پہنچا تھاتصویر: DW/B. Schülke

سولہ سالہ ايک شامی مہاجر زين حسين نے بھی ان کاموں ميں بڑھ چڑھ کر حصہ ليا۔ اس نے کہا، ’’اب ميں يہاں رہتا ہوں، يہ لازمی ہے کہ ميں مدد کروں۔‘‘ زين قريب دس ماہ قبل شام سے سمباخ پہنچا تھا۔ اس نے ايک اسکول کے جِم کو صاف کرنے ميں مدد کی، جو عنقريب کھلنے ہی والا تھا۔ زين نے رضاکارانہ بنيادوں پر ان کاموں ميں حصہ لينے کا فيصلہ کيا تھا۔

ڈی ڈبليو کی بريجيٹا شُلکے بتاتی ہيں مہاجرين نے ريڈيو پر سيلاب کی خبريں سن کر مدد کرنے کا فيصلہ کيا۔ کام کرنے والوں ميں اکثريتی طور پر شامی اور سينيگالی پناہ گزين تھے اور وہ سب آس پاس کے چھوٹے شہروں سے محض مدد کے ليے سمباخ گئے تھے۔

دوسری جانب ٹوئٹر پر اپنے پيغامات ميں چند افراد نے مہاجرين کی جانب سے مدد کرنے کے عمل کو ’اشتہاری‘ اور ’معروف ہونے کا ہتھکنڈا‘ قرار ديا اور ذرائع ابلاغ پر اس بارے ميں ’جھوٹی‘ رپورٹنگ کرنے کا الزام لگايا۔ بريجيٹا شُلکے، جو موقع پر موجود تھيں، نے البتہ بتايا کہ مقامی لوگ مہاجرين کی مدد پر کافی خوش تھے۔ وہ اسے معمول کی بات سمجھتے ہيں کہ وقت پڑنے پر لوگ ايک دوسرے کے کام آئيں۔ انہوں نے بتايا، ’’جب ميں نے سمباخ کے لوگوں سے پوچھا کہ وہ مہاجرين کے مدد کرنے پر کيا رائے رکھتے ہيں، تو انہوں نے يہ کہہ کر جواب ديا کہ ہميں يہاں کوئی مہاجر نہيں صرف انسان مدد کرتے نظر آ رہے ہيں۔‘‘

کام کرنے والوں ميں اکثريتی طور پر شامی اور سينيگالی پناہ گزين تھے
کام کرنے والوں ميں اکثريتی طور پر شامی اور سينيگالی پناہ گزين تھےتصویر: DW/B. Schülke

ڈوئچے ويلے کی رپورٹر نے سينيگال سے تعلق رکھنے والے چند مہاجرين سے بھی بات کی جن کا کہنا تھا، ’’مدد کے ذريعے ہم خود کو معاشرے ميں ضم ہوتا ہوا محسوس کر رہے ہيں۔ بحالی کے کام ميں مدد کرنا ہماری طرف سے مقامی لوگوں کے ليے تحفہ ہے اور ہميں جگہ دينے کے ليے شکريہ کہنے کا ایک انداز ہے۔‘‘