1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آنے فرانک کی ڈائری: آن لائن دستیاب

عابد حسین2 جنوری 2016

آنے فرانک کی ڈائری کی اشاعت کے ستر برس بعد بھی اِس کے اشاعتی حقوق متنازعہ ہو چکے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اُس کی موت کو ستر سال پورے ہو گئے ہیں اور اب اِس ڈائری کے حقوق عوامی ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HX6X
تصویر: DW/H. Mund

فرانس کے ایک ممبر پارلیمنٹ اور اور ایک ماہرِ تعلیم نے نازی دور میں ایک اذیتی کیمپ میں قید کے دوران ہلاک ہونے والی ٹین ایجر آنے فرانک کی ’’ڈائری آف اے ینگ گرل‘‘ یا ’ایک نوعمر لڑکی کی ڈائری‘ کو آن یعنی انٹرنیٹ پر شائع کر دیا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ سالہ آنے فرانک سن 1945میں بیرگن بیلسن اذیتی مرکز میں پھیلنے والی ٹائیفائڈ بخار کی وبا کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو گئی تھی۔ اُس نے جون سن 1942 سے لے کر اگست سن 1944کے دوران اپنے خاندان کے ہمراہ روپوشی کے ایام کو اِس ڈائری میں لکھا تھا۔ یہ ڈائری سب سے پہلے سن 1947میں اُس کے والد نے شائع کی تھی۔

انٹرنیٹ پر ڈائری شائع کرنے والے فرانسیسیوں کا کہنا ہے کہ نوعمر فرانک کی موت کے ستر برس مکمل ہونے کے بعد اب اُس کی مشہور ڈائری عوامی ملکیت بن گئی ہے۔ سن 1993میں منظور کیے جانے والے یورپی قانون کے تحت کسی بھی مصنف کی کوئی بھی کتاب رحلت کے ستر برس مکمل ہونے کے بعد ذاتی حقوق سے آزاد ہو کر عوامی ملکیت بن جاتی ہے۔ فرانس کی نانٹ یونیورسٹی کے ٹیچر اولیور ایرٹز شائیڈ (Olivier Ertzscheid) نے اِس ڈائری کے جرمن زبان میں لکھے گئے اصلی متن کو ان لائن پر پبلش کیا ہے۔

Anne Frank Bücherregal der Stadtbibliothek im sächsischen Pirna
آنے فرانک کی ڈائری کی مختلف زبانوں میں تیس ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اولیور ایرٹز شائیڈ کا کہنا ہے کہ یہ کتاب (Diary of a Young Girl) اپنے متن کے اندر اِس کی شہادت پیش کرتی ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد سے بڑی کوئی کوشش نہیں ہوتی اور اِس کتاب کو بغیر کسی پابندی کے شائع کرنا ایک انتہائی بڑا خراجِ تحسین ہے۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں اِس کتاب کے حقوق رکھنے والے اور نو عمر لڑکی کے نام پر قائم’ آنے فرانک فنڈ‘ کا کہنا ہے کہ کتاب کی آن لائن اشاعت سے روکنے کے لیے دونوں فرانسیسی افراد کو قانون نوٹسز بیجے جا چکے ہیں۔

آنے فرانک فنڈ کا مؤقف ہے کہ یہ کتاب مصنفہ کی رحلت کے بعد شائع کی گئی تھی اور اِس باعث اِس کے حقوق مزید پچاس برس تک کے لیے محفوظ ہیں۔ اِس کتاب کا پہلا باضابطہ ایڈیشن سن 1986 میں ڈچ اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ برائے وار ڈاکومینٹس (NIOD) نے شائع کیا تھا اور اِس کے حقوق اسی ادارے کے پاس سن 2037 تک محفوظ ہیں۔

نانٹ یونیورسٹی کے ٹیچر رواں برس اکتوبر میں اِس ڈائری کے دو فرانسیسی تراجم آن لائن شائع کیے تھے۔ بعد میں انہوں نے یہ ہٹا دیے تھے کیونکہ ایک پبلشر نے انہیں قانونی ٹونس جاری کر دیا تھا۔ فرانسیسی گرینز پارٹی کے رکن اسمبلی ازابیل اٹار (Isabelle Attard ) نے بھی آنے فرانک کی ڈائری کو آن لائن شائع کیا ہے۔ فرانسیسی رکن پارلیمنٹ نے آنے فرانک کے کاپی رائٹ کے مؤقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ سرمایہ جمع کرنے کی کوشش میں ہے۔