1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا سے داعش کے لیے بھرتی، جہادی مبلغ کو بیس سال سزائے قید

مقبول ملک14 جولائی 2016

یورپی ملک آسٹریا میں ایک ایسے جہادی مبلغ کو بیس سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے، جو شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کے لیے جنگجو بھرتی کرتا تھا اور اپنے خطبات میں مسلم نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی دعوت دیتا تھا۔

https://p.dw.com/p/1JOu3
Symbolbild Islamischer Staat
یورپی ملکوں سے جا کر ہزاروں نوجوان داعش کی صفوں میں شامل ہوئے، جن میں سے سینکڑوں مارے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo

آسٹرین دارالحکومت ویانا سے جمعرات چودہ جولائی کو ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جہاد اور شدت پسندی کا پرچار کرنے اور دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے نوجوان بھرتی کرنے والے اس مسلم مبلغ کا نام میرزاد او (Mirzad O.) ہے اور اس کی عمر 35 برس ہے۔

اس ملزم کو سزا آج آسٹریا کے شہر گراس (Graz) کی ایک عدالت نے سنائی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزم میرزاد اپنی تقریروں کے ذریعے نوجوانوں میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کی دانستہ کاوشیں کرتا تھا اور اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ مقامی طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے ایسے نئے جنگجو بھرتی کرے جو بعد میں شام جا کر جہادیوں کے شانہ بشانہ لڑ سکیں۔

عدالت نے ملزم کو بیس سال سزائے قید کا حکم سناتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم کے طور پر اس جہادی مبلغ کے خلاف یہ الزامات بھی ثابت ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے سامعین کو قتل اور دہشت گردانہ حملوں کے ارتکاب پر اکسانے کے علاوہ انتہائی سنگین نوعیت کے متعدد دیگر جرائم کا مرتکب بھی ہوا تھا۔

اس مقدمے میں ملزم کا موقف یہ تھا کہ اس نے ایک مبلغ یا خطیب کے طور پر کبھی بھی کسی کو یہ ترغیب نہیں دی کہ وہ کسی کے ساتھ لڑے یا کسی پر حملہ کرے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم میرزاد نے، جس کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا گیا اور جو 1990ء کے عشرے میں سابق یوگوسلاویہ سے ترک وطن کر کے آنے کے بعد آسٹریا میں آباد ہو گیا تھا، یہ بھی کہا تھا کہ اس نے کسی کو عسکریت پسندی کی ترغیب نہیں دی، ’’میں تو صرف اسی طرح سے تبلیغ کرتا تھا، جیسا میں نے سعودی عرب میں دوران تعلیم سیکھا تھا۔‘‘

ڈی پی اے کے مطابق عدالتی فیصلے کے وقت کمرہٴ عدالت میں ان آسٹرین نوجوانوں کے اہل خانہ بھی موجود تھے، جو یا تو شام میں جہادی کارروائیاں کرتے ہوئے مارے گئے یا ابھی تک لاپتہ ہیں۔ جہادی سوچ اپنا لینے والے ایسے آسٹرین نوجوانوں کے اہل خانہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اس حوالے سے بالکل بے بس ہو گئے تھے کہ ان نوجوانوں کو شامی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

عدالت نے مجرم قرار دے دیے جانے والے میرزاد اور استغاثہ دونوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ چاہیں تو بیس سال سزائے قید کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں