آسمانی بجلی سے بچاؤ کے لیے لاکھوں درخت لگانے کا منصوبہ
24 جنوری 2017بنگلہ دیش میں ہر سال سینکڑوں افراد آسمانی بجلی کی زد میں آ کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ برس صرف ایک ہی دن میں آسمانی بجلی گرنے سے اسی سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ مجموعی طور پر گزشتہ برس دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ماہرین کے مطابق یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں جبکہ سالانہ بنیادوں پر ایسی ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور وہ اس حوالے سے پولیس کو سرے سے اطلاع ہی نہیں دیتے۔ آزاد ذرائع کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں ساڑھے تین سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔
بنگلہ دیشی حکام گزشتہ کئی ماہ سے اس طرح ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے اور اب اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت اس کے علاوہ بھی کئی اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آفات سے نمٹنے کے لیے حکومتی ادارے کے سیکریٹری شاہ کمال کا اس حوالے سے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم نے دیہاتی علاقوں میں ایسے درخت لگانا شروع بھی کر دیے ہیں تاکہ آسمانی بجلی سے ہونے والی ہلاکتوں کو کم کیا جا سکے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم جون تک دس لاکھ پام کے درخت لگائیں گے۔‘‘
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق ایسی زیادہ تر ہلاکتیں ان علاقوں میں ہوتی ہیں، جہاں درختوں کی کمی ہے۔ درختوں کی ٹہنیاں آسمانی بجلی کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس طرح آسمانی بجلی کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق درخت الیکٹرک چارج کو زمین تک رابطہ فراہم کر دیتے ہیں۔
شاہ کمال کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ میں اسی طرز کے ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا، جو کامیاب رہا ہے اور ان کی ایک ٹیم نے ویتنام کا بھی دورہ کیا ہے۔ ویتنام بھی دریائے میکانگ کے کنارے کسانوں کی حفاظت کے لیے اسی طرح کا منصوبہ کامیاب بنایا چکا ہے۔
بنگلا دیش میں محکمہ موسمیات کے ایک سابق سربراہ شاہ عالم کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے ہلاکتیں مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوں گی لیکن ان کی تعداد میں کمی ضرور ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’پام کے درختوں کو بڑا ہونے میں کئی سال لگتے ہیں لیکن یہ ایک اچھا حکومتی فیصلہ ہے۔‘‘
شاہ عالم کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے دیہاتوں میں درخت کاٹنے کا رجحان بڑا ہے اور اس وجہ سے آسمانی بجلی گرنے اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔