’آرٹیسین ویلج‘، ثقافتی ورثوں کے احیاء کی کوشش
خیبرپختونخوا حکومت نے ثقافتی ورثوں اور فن پاروں کو زندہ رکھنے اور انہیں اجاگر کرنے کے لیے گورگٹھڑی کے مقام پر ’آرٹیسین ویلج‘ کے نام سے ایک فن کدہ بنایا ہے جس میں اپنے فن میں ماہر اساتذہ نئی نسل کو مختلف ہنر سکھا رہے ہیں۔
ویکس پینٹنگ
صدارتی ایوارڈ یافتہ ریاض احمد گزشتہ چالیس سالوں سے ویکس پینٹنگ (Wax Painting) سے منسلک ہیں۔ ریاض احمد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دستکاری کے فن میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ وہ اب یہ فن اپنے شاگردوں کو سکھا رہے ہیں، ریاض کہتے ہیں یہ ایک مہنگا مشغلہ ہے اور اس لیے اس کو سیکھنے اور سیکھانے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
دھاتی برتن اور زیبائشی اشیاء
ایک طویل عرصے تک پشاور میں بنائے گئے دھاتی برتن اور زیبائشی اشیاء دنیا بھر میں مشہور تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان اشیاء کی جگہ پلاسٹک اور لوہے کی اشیاء نے لے لی۔ پشاور میں گورگٹھڑی کے مقام پر قائم ’آرٹیسین ویلج‘ میں صوبہ بھر کے ماہر اور تجربہ کار ہنرمندوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہے تاکہ اس ثقافتی ورثے کو دوبارہ سے زندہ رکھا جا سکے۔
خواتین کی دلچسپی
خواتین کے دلچسپی کے پیش نظر گورگٹھڑی میں ان کے لیے کپڑوں پر کشیدہ کاری کے لیے خصوصی کلاسوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، جس میں ان کو فیبرکس پینٹنگ، بلاک پینٹنگ، سپرے پینٹنگ، کروشیہ کا کام، ثقافتی اور تاریخی کپڑوں اور زیور بنانے کا کام سکھایا جاتا ہے۔
پراندوں میں جدت کی کوشش
پانچ سالہ شمائلہ ’آرٹیسین ویلج‘ میں مختلف ڈیزائن اور سٹائل کے بنائے گئے پراندے دیکھ رہی ہے۔ کم سن شمائلہ کہتی ہے کہ اس کو یہ پراندے بہت پسند ہیں۔ وہاں خواتین کے سنگار میں پراندے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس فن میں مزید بہتری کے لیے نئے ڈیزائن متعارف کرائے جارہے ہیں۔
قراقلی یا جناح کیپ
قراقلی یا جناح کیپ بنانے کی تربیت دینے والے محمد خلیل کا یہ خاندانی پیشہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 1947ء میں پشاور کے دورے کے دوران بانی پاکستان محمد علی جناح ان کی خاندانی دوکان پر بھی آئے تھے، جہاں ان کے والد نے انہیں قراقلی کا تحفہ پیش کیا تھا۔ محمد خلیل کا کہنا ہے کہ نئی نسل کو قراقلی کا ہنر سکھانے میں ان کو بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔
زیبائش اور سجاوٹ
شیشے کے ناکارہ برتن اور بوتلوں پر مختلف سجاوٹی کام کرنے کا ہنر سکھانے والی حنا خان کہتی ہے، ’’ہم گھر میں بیٹھ کر تھوڑی سی لاگت سے ناکارہ شیشے کی اشیاء سے گھر کے سجاوٹ اور زیبائش کی چیزیں بنا سکتے ہیں۔‘‘ حناء کے بقول یہ فن سیکھ کر بچیاں گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔
مٹی کے برتن
سردارعلی کہتے ہیں کہ ان کا خاندان کئی دہائیوں سے مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ’آرٹیسین ویلج‘ میں اگر ایک طرف وہ اپنے شاگردوں کو قدیم اور روایتی مٹی کے برتن بنانے کا ہنر سکھا رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس میدان میں اپنے شاگردوں کے فن کو جدت سے بھی آراستہ کریں۔
قالین سازی کا ہنر
پشاور میں قائم ’آرٹیسین ویلج‘ میں قالین بنانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ علی خان کہتے ہیں کہ وہ یہ کام اس لیے سیکھ رہے ہیں تاکہ مستقبل میں باقاعدہ طور پر اس کے کاروبار سے وابستہ ہو جائیں۔
رنگوں کا امتزاج
مٹی کے بنائے گئے برتنوں پر ڈیزائنوں اور رنگوں سے ان کو مزید خوب صورت بنایا جاتا ہے۔ اس فن میں خواتین زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ ان مٹی کے برتنوں کی زیبائش کے بعد اک کی قیمت دوگنا ہو جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا اور رباب
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی ثقافت میں موسیقی کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ پشتون قوم رباب کے بہت زیادہ دل دادہ ہیں۔ گورگٹھڑی میں نوجوان نسل کو رباب بنانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
مصنوعات کی فروخت کا منصوبہ
’آرٹیسین ویلج‘ میں ڈسپلے سینٹر بھی بنایا گیا ہے، جس میں اساتذہ اور طالب علوں کی بنائی گئی مصنوعات رکھی جاتی ہے۔ یوں ان مصنوعات کی باقاعدہ طور پر فروخت کا کام بھی جلد شروع کیا جا رہا ہے۔
خواتین کی استعداد کاری
’آرٹیسین ویلج‘ میں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت خوش آئند ہے۔ صوبہ بھر سے خواتین یہاں پر تربیت حاصل کرنے کے لیے آرہی ہے۔ ہنر سیکھنے کے بعد خواتین معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
آرٹیسین ویلج‘۔ ایک نئی روایت
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے گورگٹھڑی کے مقام پر واقع ’آرٹیسین ویلج‘ ثقافتی ورثوں اور فن کو زندہ رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ اس فن کدے میں نوجوانوں کو نہ صرف متعقلہ ہنر سکھائے بھی جاتے ہیں بلکہ یہ مقام تربیت یافتہ افراد کے لیے آمدنی کا سبب بھی بن رہا ہے۔