آئيوری کوسٹ: نئے صدر کو قومی مصالحت کا عظيم کام درپيش
12 اپریل 2011آئيوری کوسٹ کے نئے صدر وتارا کو اب جو نئی جنگ لڑنا ہے وہ کم از کم اتنی ہی زيادہ مشکل ہے جتنی کہ انتخابات اور ان کے بعد کی جنگ تھی، اور وہ ہے باگبو کے حاميوں کے دل جيتنا اور قوم کے مختلف گروہوں کے درميان صلح پيدا کرنا۔
الاساں وتارا کو يہ معلوم ہے کہ انہيں ايک بہت بڑا کام انجام دينا ہے۔ چار ماہ قبل کے انتخابات ميں آئيوری کوسٹ کے تقريباً آدھے ووٹروں نے بين الاقوامی طور پر تسليم کيے جانے والے وتارا کے بجائے اپنے ووٹ اُن کے مخالف لاراں باگبو کو ديے تھے۔ انتخابات کے بعد کے ہفتوں اور مہينوں کے دوران ملک نے بہت زيادہ تشدد کے مناظر ديکھے اور قوم ميں انتخابات کے بعد ايسی نااتفاقی پيدا ہو گئی جواس سے پہلے کبھی نہيں تھی۔ اب وتارا نے ايک بار پھر آپس ميں صلح کی اپيل کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ چند دن پہلے ہی يہ اعلان بھی کرچکے ہيں کہ ايک کميشن قائم کيا جائے گا جو قتل عام اور تشدد کے واقعات کی تحقيقات کرے گا اور مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی۔
تاہم اگلے دنوں کے دوران وتارا اپنے مخالف، سابق صدر باگبو کی خيرو عافيت کے ذمہ دار بھی ہوں گے۔ اُنہيں يہ انتظام کرنا ہوگا کہ باگبو کو کچھ نہ ہونے پائے کيونکہ دوسری صورت ميں ملک دوبارہ جنگ کی لپيٹ ميں آ جائے گا اور سابق صدر چاہے زندہ يا مردہ ايک ہيرو بن جائيں گے۔ انٹرنيشنل کرائسس گروپ کے رينالڈو ڈيپانيے نے کہا: ’’مسٹر باگبو کی حفاظت لازمی ہے۔ ان کے دشمنوں کو يہ موقع نہيں ملنا چاہيے کہ وہ انہيں کسی قسم کا نقصان پہنچا سکيں۔ ان کی حفاظت کی جانا چاہيے، ان افراد کی مدد سے بھی جو ان کے مخالف ہيں۔‘‘
دوسرے ماہرين بھی اسے لازمی سمجھتے ہيں کہ نئے صدر اس بحران زدہ ملک ميں صلح اور امن کی کوشش کريں۔ سينیگال کی حقوق انسانی کی تنظيم RADDHO کےعيلوين تين نے کہا کہ اگر نئے صدر نے قوم ميں صلح پيدا کرنے کی دل سے کوشش نہيں کی تو تنازعہ جاری رہے گا۔ حکومت ميں مختلف سياسی سوچ رکھنے والوں کوبھی جگہ ملنا چاہيے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ يہ ياد رکھنا ہوگا کو باگبو کہ پہلے انتخابی مرحلے ميں 38 فيصد ووٹ ملے تھے اور ان کی پارٹی تقريباً تين عشروں سے ملک ميں موجود ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک